schema:text
| - Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check
Contact Us: checkthis@newschecker.in
Fact checks doneFOLLOW US
Fact Check
آکاش آرایس ایس نامی ٹویٹر یوزر نے کیرلہ کےمدرسہ ٹیچروں کے حوالے سے ایک شخص کا ویڈیو شیئر کیا ہے۔جس میں اس شخص کا دعویٰ ہے کہ بھارت کے کیرلہ میں مدارس پر سرکار بہت زیادہ پیسا خرچ کررہی ہے۔جس میں انہوں نے شمار کرایا ہے کہ کیرلہ میں مدارس کی کل تعداد 21,683 ہے۔ ہر ٹیچر کو 25ہزار سلیری دی جاتی ہے۔2لاکھ سے زیادہ ریٹائرڈ مدرسہ ٹیچر ہیں۔جنہیں چھ ہزار ہرمہینے پینشن دی جاتی ہے۔
آکاش کے ٹویٹر پوسٹ کاآرکائیو لنک۔
موہن آر کلیانا رامن نامی فیس بک یوزر نے انگلش میں مذکورہ دعوے کو پوسٹ کیا ہے۔جس کا آرکائیولنک۔
تتھاگتھا رائے نامی آفیشل ٹویٹر ہینڈل نےبھی اس دعوے کو کیرلہ کے اقلیتی امور کے وزیر کے ٹی جلیل کے حوالے سے شیئر کیا ہے۔آرکائیو لنک۔
وائرل ویڈیو میں کئے گئے دعوے کی سچائی جاننے کےلئے ہم نے سب سے پہلے کیفریم کی مدد سے وائرل ویڈیو میں نظر آرہےشخص کو یوٹیوب پر تلاشا۔جہاں ہمیں وائرل ویڈیو ملا۔ویڈیو میں نظر آرہاشخص پاکستانی نزاد عارف اجاکیا ہے۔جو اپنے ویڈیو کے ذریعے پاکستان کے اقلیتوں کی بات عوام تک پہنچاتے ہیں۔بتادوں کہ پورے ویڈیو کو سننے سے پتا چلا کہ واقعی عارف نے کسی نامعلوم ڈیٹا کے بنیاد پر اپنی بات کہی ہے۔ہم نے احتیاطاً ویڈیو کو آرکائیو کرلیا۔
پھر ہم نے اپنی تحقیقات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ” کیرلہ میں مسلمانوں کی کتنی آبادی ہے”یہ سرچ کیا تو ہمیں پاپولیشن ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر (populationu.com) مسلمانوں کی آبادی کے حوالے سے جانکاری ملی۔جس میں کیرلہ کے مسلمانوں کی جو آبادی شمار کی گئی ہے وہ ہو بہو وہی ہے جو عارف اجاکیا نے شمار کرایا ہے۔لیکن اس ویب سائٹ پر مدارس کے حوالے سے کسی بھی طرح کی جانکاری نہیں ملی۔
مذکورہ ویب سائٹ پر ہمیں شک ہوا تو ہم نے مردم شماری کے حوالے سے مزید کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں ہمیں کیرلہ کی سرکاری ویب سائٹ پر 2011 کی مردم شماری کا ڈیٹا ملا۔ جس میں کیرلہ کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد 17,455,506اور شہری علاقوں میں رہنے والوں کی تعداد 15,932,171 بتائی گئی ہے۔بتا دوں کہ مردم شماری ہر دس سال پر کی جاتی ہے اور 2021 کا ڈیٹا آنا ابھی باقی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت سرکار کی ویب سائٹ(Censusindia.gov.in) پر کیرلہ کی آبادی کل 33406061 بتائی گئی ہے۔ سرکاری ڈیٹا کے حساب سے مذکورہ ویڈیو میں آبادی کے حوالے سے کیا گیا دعویٰ غلط ہے۔البتہ مسلمانوں کی آبادی صحیح بتائی گئی ہے۔
سرچ کے دوران اس حوالے سے ہمیں کوئی بھی خاص معلومات نہیں ملی۔ اس کے بعد ہم نے کیرلہ مدرسہ ویلفئر بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے بات کرنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن ہماری ان سے بات نہ ہو سکی۔پھر ہمیں دی قوینٹ پر مدارس کی کل تعداد کے حوالے سے جانکاری ملی۔ جس کے مطابق کیرلہ میں کل مدارس کی تعداد 27814 ہے نا کہ 21683۔
سی ای او حمید نے دی قونٹ کو دی جانکاری میں بتایا کہ مدرارس میں کل اساتذہ کی تعداد محض 1,70,816 ہے۔
دعوے کے مطابق کیرلہ میں پنچایت کی کل تعداد 941 ہے۔وہیں کیرلہ سرکار کے دیئے گئے ڈیٹا کے مطابق بھی گرام پنچایت کی کل تعداد 941 ہی ہے۔ لیکن دعوے میں کل مدارس کی تعداد 21683بتائی گئی ہے اور اس حساب سے شمار کیاجائے تو ہر پنچایت میں مدارس کی تعداد 23 ہوئی۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ کیرلہ میں کل مدارس کی تعداد 21683 نہیں بلکہ 27814 ہے تو اگر اب ہم ہر پنچایت کے مدارس کی تعداد شمار کریں تو تقریباً ہر پنچایت میں 29 مدارس ہونے چاہیئے۔
اس کے علاوہ کیرلہ حکومت کی مائنارٹی ویلفیئر ڈائریکٹوریٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کیرلہ میں 16 ایسے کوچنگ سینٹر ان مسلمان نوجوانوں کے لئے ہیں جو مسابقتی امتحانوں کی تیاری کرتے ہیں۔ وہاں کے اساتذہ کو 25000 کی ایک مستحکم رقم ادا کی جاتی ہے۔اور جو کلاس مختلف استاتذہ سے کرائے جاتے ہیں انہیں فی گھنٹے کی اجرت 300 روپے دی جاتی ہے۔
دی قونٹ نے ڈائریکٹریٹ آف مائنورٹی ویلفئیرکے” ڈایریکٹر معین الدین کٹی اے۔ بی “سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت مدارس میں کام کرنے والے کسی بھی اساتذہ کو کوئی تنخواہ نہیں دیتی ہے۔ان اساتذہ کو مدرسہ کمیٹیاں تنخواہ دیتی ہے۔سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔اس حساب سےہرمہینے اساتذہ کو 512 کروڑ دیئے جانے والا دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔
آٹھواں دعویٰ جس میں کہاگیا ہے کہ کیرلہ کے مدارس کے اساتذہ کو ہر ماہ 6000 پینشن دیا جاتا ہے۔جب ہم نے اس حوالے سے کیورڈ سرچ کیا تو دی ہندو ویب سائٹ پر 20نومبر2020 کی ایک خبر ملی۔جس کے مطابق کیرلہ اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا تھا۔جس میں مدارس کے اساتذہ کو ایک اسکیم کے تحت پینشن دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔پینشن کی رقم پانچ سو سے بڑھا کر 1500 سے 7500 تک حد طے کی گئی ۔بتادوں کہ اس اسکیم کے تحت محض 230 افراد کو پینشن دی جارہی ہے۔
دعوے کے مطابق مدارس پر سالانہ سات ہزار پانچ سو اسی کروڑ روپے کا خرچ آتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اس میں استعمال کیا گیا ڈیٹا صحیح نہیں ہے تو اس حساب سے اس سالانہ خرچے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کیرلہ کے مدارس کے اساتذہ کےحوالے سے کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔اساتذہ کےتنخواہ اور پینشن کے تعلق سے جو دعویٰ کیاگیا ہے کہ سرکا ر پورااخراجات اٹھاتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں مدرسہ کمیٹیاں تنخواہ دیتی ہیں۔
P:https://www.populationu.com/in/kerala-population
K:https://kerala.gov.in/census2011#:~:text=Census%202011&text=As%20per%202011%20Provisional%20Population,males%20and%208%2C314%2C587%20are%20females.
E:https://censusindia.gov.in/2011census/C-01.html
Q:https://www.thequint.com/news/webqoof/viral-message-shows-incorrect-data-on-madrasas-in-kerala#read-more#read-more#read-more
D:https://dop.lsgkerala.gov.in/index.php/en/article/158
M:https://www.minoritywelfare.kerala.gov.in/aboutus.php
H:https://www.thehindu.com/news/cities/Thiruvananthapuram/welfare-fund-for-madrasa-teachers/article30023633.ece
وٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Mohammed Zakariya
January 9, 2021
Mohammed Zakariya
August 7, 2020
Mohammed Zakariya
August 6, 2020
|