فیکٹ چیک: شام میں تختہ پلٹ کے بعد جھڑپوں کے حوالے سے وائرل ہو رہا ویڈیو 2013 کا ہے
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ ویڈیو مارچ 2013 کا ہے۔ اور یہ ویڈیو اس وقت کا ہے جب دمشق کی اس عمارت میں حملہ ہوا تھا۔ اس پرانے ویڈیو شام کے موجودہ حالات سے جوڑتے ہوئے گمراہ کن حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
- By: Umam Noor
- Published: Dec 13, 2024 at 03:02 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے بعدسے مسلسل اس معاملہ سے متعلق ویڈیو اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ اسی کڑی میں ایک ویڈیو شیئر کیا جا رہا ہے جس میں ایک عمارت سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کہ دمشق کے وسط میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت اور جنرل اسٹاف کی عمارت میں جھڑپوں کا یہ منظر ہے۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ ویڈیو مارچ 2013 کا ہے۔ اور یہ ویڈیو اس وقت کا ہے جب دمشق کی اس عمارت میں حملہ ہوا تھا۔ اس پرانے ویڈیو شام کے موجودہ حالات سے جوڑتے ہوئے گمراہ کن حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’دارالحکومت دمشق کے وسط میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت اور جنرل اسٹاف کی عمارت میں بھی جھڑپیں۔۔۔ وہ تو حلب اور حمص کو رو رہے تھے مگر اب تو دمشق کے وسط سے انقلاب کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ہر گزرتے وقت میں بشار الکلب کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے‘‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
پڑتال
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے میں ویڈیو کے کی فریمس نکالے اور انہیں گوگل لینس کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ کئے جانے پر ہمیں یہ ویڈیو 25 مارچ 2013 کو ’آئی دمشق‘ نام کے ایک یوٹیوب چینل پر اپلوڈ ہوا ملا۔
ٹائم ٹول کی مدد سے ہم نے اپنی پڑتال کو آگے بڑھایا اور اسی بنیاد پر سرچ کیا۔ سرچ کئے جانے پر وائرل ویڈیو ایک دیگر یوٹیوب چینل پر بھی مارچ 2013 کیا ہوا ملا۔ یہاں ویڈیو کے ساتھ دی گئی معلومات کےمطابق، یہ ویڈیو اموی اسکوائر کے دمشقی تلوار کے مجسمے کے قریب گرنے والے مارٹر شیل کے دھویں کا ہے۔
مزید نیوز سرچ کئے جانے پر ہمیں فرانس 24 کی ویب سائٹ پر اس معاملہ سے متعلق خبر ملی۔ 25 مارچ 2013 کو شائع ہوئی خبر میں بتایا گیا کہ، اس وقت کے حزب اختلاف نے دشمق کی ایک اہم جگہ اموی اسکوائر پر درجنوں مارٹر گولے داغے تھے۔ وہیں اسی کے قریب سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت بھی ہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
وائرل تصویر سے متعلق تصدیق کے لئے ہم نے شامی صحافی عزالدین القاسم سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ تختہ پلٹ کے بعد یہ ویڈیو کافی وائرل ہو رہا ہے حالاںہ یہ برسوں پرانا ویڈیو ہے اس کا حالیہ حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خبروں کے مطابق، ’شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف اپوزیشن کے باغیوں نے ایک بڑی کارروائی کے بعد دارالحکومت دمشق پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد سابق صدر بشار الاسد ماسکو میں ہیں اور روس نے انہیں بشمول اہل خانہ سیاسی پناہ دی ہے۔
گمراہ کن پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق پاکستان کے کراچی سے ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ ویڈیو مارچ 2013 کا ہے۔ اور یہ ویڈیو اس وقت کا ہے جب دمشق کی اس عمارت میں حملہ ہوا تھا۔ اس پرانے ویڈیو شام کے موجودہ حالات سے جوڑتے ہوئے گمراہ کن حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
- Claim Review : دمشق کے وسط میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت اور جنرل اسٹاف کی عمارت میں جھڑپوں کا یہ منظر ہے۔
- Claimed By : FB User- Jamal Khan
- Fact Check : گمراہ کن
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔